Shahadah & Life of Sayyiduna Umar Faruq A'azam radi Allahu Ta'ala 'anhu

Discussion in 'Siyar an-Nubala' started by Qasim Hanafi Ridwi, Nov 5, 2013.

Draft saved Draft deleted
  1. Shahadah & Life of Sayyiduna Umar Faruq A'azam radi Allahu Ta'ala 'anhu by Shaykh ul Qur'an wal Hadith Pir Mufti Muhammad Afzal al Qadri Marrarian Sharif Gujrat Pakistan


    امیر ا لمؤ منین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت ونظام حکومت
    استاذ العلماء پیرمفتی محمد افضل قادری کی معرکۃ الآراء تحریر
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    حضرت ابو حفص عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّیٰ بن رباح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی القرشی کا سلسلہ نسب کعب بن لوئی میں حضور نبی اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔ آپ عام الفیل کے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بڑے ہو کر کشتی، فن سپہ گری اورخطابت میں خوب مہارت حاصل کی۔ آپ قریش کے لئے سفیر کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ عدل وانصاف اور دیانتداری کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں آپ کو قبائل عرب اپنے جھگڑوں میں ثالث تسلیم کرتے تھے۔ آپ نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور دور دراز علاقوں کے سفر کئے جس کی بدولت تجربہ اور دور بینی میں خوب اضافہ ہوا۔
    قبول اسلام
    نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ اور دین اسلام کی بے مثال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن، کاروبار، خاندان اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر مکہ مکرمہ جیسے بلد امین سے ہجرت کی تو ایک صحابیہ ام عبد اللہ بنت ابی حشمہ رضی اللہ عنہا کو ہجرت کرتے دیکھ کرعمر مشتعل ہوئے کہ خواتین کی ہجرت سے قریش کی شدید بدنامی ہو گی اور پیغمبر اسلامﷺ کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلے کہ راستے میں ایک صحابی رسول نعیم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اپنا مقصد ظاہر کیا تو حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پہلے گھر کی خبر لو! تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب اور تمہارے بہنوئی سعید بن زید بھی مسلمان ہو چکے ہیں، انتہائی غصے کی حالت میں اپنی بہن کے گھر پہنچے تو گھر کے اندر حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ، حضرت سعید اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو قرآن پڑھا رہے تھے۔ قرآن مجید کی آواز سن کر اور زیادہ مشتعل ہوئے، حضرت خباب اندر چھپ گئے، عمر گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو شدید زدوکوب کرنے لگے، فاطمہ رضی اللہ عنہااپنے شوہرکو چھوڑانے کیلئے قریب آئیں تو انہیں بھی زخمی کر دیا۔ اسی موقع پر حضرت فاطمہ نے غضب ناک ہو کر فرمایا:
    ’’اے عمر تیرے دین میں حق نہیں ہے اور کہا: ’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ‘‘ عمر نے کہا: مجھے وہ اوراق دکھاؤ جن کی تم تلاوت کر رہے تھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگ غسلِ جنابت نہیں کرتے اور اِن اوراق کو صرف پاک لوگ چھو سکتے ہیں۔ عمر نے طہارت حاصل کی اور ’’طٰہٰo مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقآی سے لے کر اِنَّنِیْٓ اَنَا اﷲُ لآ اِٰلہَ اِلَّاآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِی‘‘(طٰہٰ:۱۴) تک پہنچے تو کہا کتنا حسین بلند اور میٹھا کلام ہے۔ مجھے حضرت محمد(ﷺ) کے پاس لے چلو۔
    چنانچہ بارگاۂِ نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا
    حضرت عمر مرادِ رسول ہیں کیونکہ آپکے اسلام لانے سے دو روز قبل رسول اللہ ﷺ نے دعا کی تھی:
    ’’اللّٰھُمَّ اَعِزِّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ اَوْ بِعَمْرِو بْنِ ہِشَام۔‘‘
    ترجمہ: ’’اے اللہ عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابو جہل) میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو عزت وغلبہ عطا فرما۔‘‘ (جامع ترمذی باب فی مناقب ابی حفص )
    آپ کے قبول اسلام پر ایک روایت کے مطابق مسلمان مردوں کی تعداد چالیس ہو گئی اور آیت نازل ہوئی:
    ’’یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اﷲُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔‘‘(انفال:۶۴)
    ترجمہ: ’’اے نبی (غیب دان) تمہیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور جن مؤمنین نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہے۔‘‘
    نکتہ: جو لوگ بند گانِ خدا کی حمایت وامداد کی نفی کرتے ہیں اور اسی نظریہ کے اظہار کیلئے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں اللہ ہی کافی ہے اُن کا یہ انداز قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کے خلاف ہے۔ حق یہ ہے حقیقی مددگار اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مجازی وعطائی طور پر اللہ تعالیٰ کے بندے بھی مدد کرسکتے ہیں۔
    بہرحال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام بارگاۂِ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: حضور! آسمانوں میں ملائکہ نے آپس میں حضرت عمر فاروق کے اسلام قبول کرنے پر مبارک باد پیش کی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے مسلمان بالادست ہوگئے‘‘ (بخاری)کفار قریش نے کہا: ’’قَدِ انْتَصَفَ الْقُوْمُ‘‘ آج قوم آدھی رہ گئی ہے اور اس روز کفار قریش کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔
    فاروق اور فاروق اعظم کا خطاب
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے فورا بعدبارگاۂِ نبوی میں عرض کی یارسول اللہ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں۔ تو عرض کیا حضور! ہم اپنا دین کیوں پوشیدہ رکھیں؟ چنانچہ مسلمانوں کی دو صفیں بنیں ایک کی قیادت عمِ رسول حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمائی اور دوسری صف کی قیادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔ اور مسجد حرام میں داخل ہو کر اسلام کا ب�آواز بلند اظہار کیا اور اعلانیہ عبادت کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے مسجد حرام میں کھل کر اسلام کا اظہار کیا اور اعلانیہ عبادت کی اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے آپ کو فاروق (حق وباطل میں فرق کرنے والا) کا خطاب عطا کیا اور اب دنیا بھر کے تمام مسلمان آپ کو’’فاروق اعظم‘‘کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ کچھ لوگ غوث اعظم کو شرکیہ کلمہ کہتے ہیں حالانکہ جو توجہیہ فاروق اعظم میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فاروق اعظم ہونا صحابہ کبار کی نسبت سے ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے مقابلہ میں ہے۔ اسی طرح غوث اعظم (سب سے بڑا غوث) بھی اولیاء کرام کی نسبت سے ہے اور امام اعظم فقہاءِ اسلام کی نسبت سے ہے جیسا کہ قائداعظم کا لفظ قائدین تحریک پاکستان کی نسبت سے ہے نہ کہ ا للہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کے مقابلہ میں شرکیہ وکفریہ کلمہ ہے۔
    دورِ نبوی میں آپکی خدمات وفضائل
    اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اعلانیہ عبادت اور تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آپ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر اعلانیہ ہجرت کی جبکہ دیگر مسلمانوں نے خفیہ ہجرت کی۔ ہجرت مدینہ کے بعد تمام غزوات میںآپ کو نبی ﷺ نے اپنے ساتھ رکھا اور فرمایا:
    ’’مَا مِنْ نَّبِیٍّ اِلَّا وَلَہٗ وَزِیْرَانِ مِنْ اَھْلِ السَّمَاءِ وَوَزَیْرَانِ مِنْ اَھْلِ الْاِرْضِ۔ اَمَّا وَزِیْرَایَ فِی السَّمَاءِ فَجِبْرَءِیْلُ وَمِیْکَاءِیْلُ وَوَزِیْرَایَ فِی الْاَرْضِ فَاَبُوْبَکْرٍ وَّعُمَرُ۔‘‘(جامع ترمذی ومشکوٰۃ المصابیح)
    ترجمہ: ’’یعنی ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں سے اور دو وزیر زمین والوں سے ہوتے ہیں لیکن میرے وزیر اہل سماء سے جبرئیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں سے ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما)ہیں۔‘‘
    رسول اکرم ﷺ آپ پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے آپ کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح میں لے کر آپ کو اپنا سسر ہونے کا شرف بھی عطا فرمایا۔
    حضرت عبد اللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت رسول اللہ ﷺ نے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو فرمایا: ’’ھَذَانِ السَّمْعُ وَالْبَصْرُ‘‘ ترجمہ: یہ دونوں میرے کان اور آنکھیں ہیں۔ (ترمذی، مشکوۃ)
    حضرت ابو بکر وعمررضی اللہ عنہما نے جنگ بدر کے موقع پر وادی ذفران میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے پہلے اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اور جنگ بدر میں ہی حضرت عمر فاروق کے غلام مہجع سب سے پہلے شہید ہوئے۔ جنگ تبوک کے موقع پر آپ نے اپنے تمام مال کے دوحصے کئے، ایک حصہ جہاد کیلئے بارگاہ نبوی میں پیش کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا: ’’ھَلْ لِاَحَدٍ مِنْ الْحَسَنَاتِ عَدَدَ نَجُوْمِ السَّمَاءِ‘‘ ترجمہ: کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں؟ فرمایا: ہاں عمر کی نیکیاں۔ تو میں نے عرض کی: ’’اَیْنَ حَسَنَاتُ اَبِیْ بَکْرٍ‘‘ حضرت ابو بکر کی نیکیاں کہاں ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّمَا جَمِیْعُ حَسَنَاتِ عُمَرَ کَحَسَنۃٍ وَّاحِدَۃٍ مِّنْ حَسَنَاتِ اَبِیْ بَکْر‘‘ ترجمہ: بیشک عمر کی تمام نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے مثل ہیں۔
    آپ کی رائے کا قرآن کے مطابق ہونا:
    مشکوٰۃ، مناقب عمر فصل ثانی میں ارشاد نبوی ہے:
    ’’لَوْکَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَّکَانَ عُمَر۔‘‘
    ترجمہ: ’’اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے۔‘‘
    ایک حدیث میں فرمایا: فرشتوں کی جماعتِ سکینہ حضرت عمر کی زبان پر بولتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے:بیشک اللہ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے۔ کتنے ہی مقامات ہیں کہ قرآن مجید بھی نازل نہیں ہوا تھا اللہ تعالیٰ کے ارادے اور علم میں تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غیر منزل شدہ کلام ووحی کے مطابق رائے قائم فرماتے تو اس کے بعد قرآن مجید آپ کی پیش کردہ رائے کے مطابق نازل ہوتا، جس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔
    1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کتناہی اچھا ہو کہ طواف کعبہ کے بعد 2 رکعت نفل مقام ابراہیم کے پاس پڑھے جائیں تو آیت مبارکہ: ’’وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی‘‘ (بقرہ:۱۲۵)نازل ہوئی یعنی اے مسلمانو!تم مقامِ ابرہیم کو جائے نماز بناؤ۔ (مشکوۃ، مناقب عمر فصل ثالث)
    2۔ آپ نے شراب پر پابندی کی رائے پیش کی تو آیت مبارکہ نازل ہوئی: ’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن‘‘ (المائدہ:۹۰) ترجمہ: اے ایمان والو!شراب انگوری اور جوا اور بتوں کے نام کے نصب شدہ پتھر اورتیر ناپاک ہیں اور شیطانی کامو ں سے ہے، ان سے بجتے رہنا تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
    3۔ بشر نامی شخص کا ایک یہودی سے جھگڑاہوا بشر کا خیال تھا کہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ کروایا جائے لیکن یہودی نے کہا:مجھے پیغمبر اسلام کا فیصلہ منظور ہے کیونکہ وہ عادل وامین ہیں چنانچہ رسول اللہﷺ نے فریقین کا موقف سننے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو بشر نامی شخص جو بظاہر مسلمان تھا، اس نے باہر نکل کر حضرت عمر فاروق سے فیصلہ لینے پر اصرار کیا تو یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتا دیا کہ پیغمبر اسلام قبل ازیں اس مقدمہ کو سن کر میرے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں حضرت عمر رضی اللہ نے بشر سے پوچھا کیا یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے اس نے کہا: یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن میں نے تو آپ سے فیصلہ کروانا ہے تو اسی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے گئے تلوار نیام سے نکالی اورباہر نکل کر بشر نامی منافق کی گردن قلم کر دی اور فرمایا: ’’ھٰکَذَا اَقْضِیْ لِمَنْ لَّمْ یَرْض بِقَضَاءِ اللّٰہِ ورَسُوْلِہٖ ترجمہ: جو اللہ اور اسکے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہو گا میں اسکا اسی طرح فیصلہ کرونگا (تفسیر مظہری)۔ چنانچہ آپ کی تائید میں قرآن پاک آیت مقدسہ نازل ہوئی، ارشاد باری تعالیٰ ہوا: ’’وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ‘‘ (نساء:۶۴) ترجمہ: اورہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس قتل کو ’’ہدر‘‘ قرار دیا یعنی نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر فرد جرم عائد کی اور نہ قصاص لیااور نہ دیت کا حکم فرمایا۔
    4۔ آپﷺ ابتداء میں منافقین (بدعقیدہ لوگوں) کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے آپ ﷺ نے ممانعت نمازِ جنازہ نہ ہونے کی وجہ سے رائس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ بھی پڑھائی تو اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی پر زوراستدعا کی تو اس کے بعد وحی نازل ہوئی ’’وَ لاَ تُصَلِّ عَلآی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلاَتَقُمْ عَلآی قَبْرِہٖ‘‘ (توبہ: ۸۴) ترجمہ: (اے نبی کریم ﷺ)آپ ہمیشہ کیلئے اِن منافقین (بد عقیدہ) میں سے کسی کی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اسکی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کریں۔‘‘ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں کیلئے بد عقیدہ لوگوں کی نمازِ جنازہ اور اُن کیلئے دعاءِ مغفرت ممنوع ہوگئی
    5۔ ابتداء میں ازواج مطہرات اور مسلم خواتین ’’سترِعورت‘‘ اختیار فرماتیں لیکن چہرہ ڈھانپنے کے احکام نہیں تھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بارگاۂِ نبوی میں حجاب (مکمل پردہ) کیلئے مشورہ پیش کیا: ’’تو وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْءَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَاب‘‘(احزاب: ۵۳) ترجمہ: جب تم نے کوئی سامان ازواج نبی سے مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگا کرو۔ کا نزول ہوا۔ (مشکوۃ، مناقب عمر فصل ثالث)
    رسول اللّٰہﷺ نے ان کی وفات
    سے پہلے انہیں شہید اور جنتی قرار دیا
    رسول اللہ ﷺ احد پہاڑ پر تشریف لائے آپکے ساتھ حضرت ابو بکر وعمروعثمان رضی اللہ عنہم تھے پہاڑ میں زلزلہ (وجد) کی کیفیت پیدا ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’اُثْبُتْ یا اُحُد فَاِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وصِدِّیْقٌ وَشَھِیْدَان‘‘
    ترجمہ: اے احد ٹھہر جا تجھ پر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں۔ تو زلزلہ فورًا تھم گیا۔
    رسول اللہ نے فرمایا: ’’اِنَّ اَبَا بَکْرٍ وَّعُمَرَسَیِّدَا کَھُوْلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ مَاسِوَی النَّبِیِّیْنَ وَالمُرْسَلِیْْن‘‘ (مشکوۃ باب مناقب ابی بکر وعمر فصل ثالث) ترجمہ: بیشک ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما)درمیانی عمر کے جنتیوں کے سردار ہیں۔
    ایک حدیث میں فرمایا: ’’ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، اور ابوعبیدہ بن جراح(رضی اللہ عنھم) جنتی ہیں‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، مشکوۃ المصابیح)۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے ابو بکررضی اللہ عنہ دائیں، عمررضی اللہ عنہ بائیں تھے اور آپ دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فرمایا: ہم اسی طرح جنت میں داخل ہوں گے (ترمذی، مشکوۃ)۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل جنت درجہ علیین کے جنتیوں کو دیکھیں گے جیسا کہ تم روشن ستارہ آسمان میں دیکھتے ہو اور ابو بکر وعمر علیین میں اونچے درجے میں ہوں (ابوداؤد، ترمذی، مشکوۃ)۔
    حضرت عمر کا دورِِ صدیقی میں کردار
    حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ثقیفہ بنوساعدہ میں سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیعتِ امارت کی اور اس کے بعد تمام صحابہ واہل بیت نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بھی معتمد ترین ساتھی تھے اور آپ نے بے شماربار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشورے منظور کئے، خصوصاً قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کی حیات ظاہرہ میں ایک کتاب کی شکل میں جمع نہ ہو سکا، کاغذات، کپڑوں، پاک ہڈیوں، لکڑیوں، چمڑوں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا، جنگ یمامہ میں سینکڑوں حفاظِ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہی خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر زور دیا کہ وہ قرآن کو کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا اہتمام فرمائیں اس سے پہلے کہ باقی ماندہ حفاظِ قرآن جنگوں میں شہید ہو جائیں۔ ابتداء میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عذرکیا اور فرمایا میں وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہﷺ نے نہیں کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار اصرار فرماتے رہے اے خلیفہ رسول یہ کام خیر ہے اسے ضرور کیجئے بالآخر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی پرزور رائے کو تسلیم کیا اور کاتب وحی حضر ت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید ایک کتاب کی صورت میں جمع کر نے کا حکم دیا اور تدوین قرآن کا تاریخی فریضہ انجام پا یا۔
    خلافت فاروقی اور دورِ خلافت پرایک نظر
    خلیفہ رسول بلافصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ۲۱ جمادیٰ الآخرہ ۱۳ ھ ؁کو اپنے وصال سے ایک روز قبل چند اکابر صحابہ کی مشاورت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسولِ ثانی مقرر کیا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سخت مزاجی کا ذکر کیا اور کہا: آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کروں گا: ’’اِسْتَخْلَفْتُ عَلَیْھِمْ خَیْرَ اَھْلِکَ۔‘‘ ترجمہ: میں نے لوگوں پر تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ مقرر کیا تھا چنانچہ تمام صحابہ واہل بیت اور قریب وبعید کے مسلمانوں نے آپ کی بیعتِ امارت کی اور آپ کی خلافت پر بھی خلافتِ صدیقی کی طرح صحابہ واہل بیتِ رسول کا اجماع منصوص قائم ہوا۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام کے اجماعِ منصوص کا انکار کرنا فقہاء کے نزدیک کفر ہے۔
    دانائے غیوب حضرت محمد رسول ﷺ نے اگرچہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فریایا لیکن حضرت ابو بکر وحضرت عمر رضی اللہ عنھما کی خلافت کے واضح اشارات ضرور دیئے۔
    (1) حضرت خذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’فَاقْتَدُوْا بِالَّذِیْنَ بَعْدِی اَبِیْ بَکْرٍ وَّعُمَرَ‘‘ (ترمذی ومشکوۃ) ترجمہ: تم میرے بعد ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما) کی اقتداکرنا۔
    (2) حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے خواب عرض کی: کہ آسمان سے ایک میزان اترا ہے آپ ﷺ اور حضر ت ابو بکررضی اللہ عنہ کا وزن ہوا تو آپ ﷺ کا وزن زیادہ ہوا پھر حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کا وزن ہوا تو حضرت ابو بکرکا وزن زیادہ ہوا پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وزن زیادہ ہوا ’’فَقَالَ خِلَافَۃُ نَبَّوَۃٍ‘‘ ترجمہ: تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس خواب کی تعبیر، نبوت کی خلافت ہے‘‘ (ترمذی، مشکوۃ)
    بے مثال دورِ فاروقی کی ایک جھلک:
    ٓٓآپ کے ساڑھے دس سالہ دورِ خلافت میں اسلامی ریاست ایران، بلوچستان، خراساں (سمرقند بخارا وغیرہ) سے طرابلس الغرب (تقرباً 22لاکھ 51ہزار 30مربع میل) تک پھیل گئی جو تاریخ انسانی میں اتنی مدت میں ریکارڈ ہے۔ جس میں دمشق، رومیوں کا وسط ایشیاء میں دارالخلافۃ حمص، فلسطین، مصر، طرابلس الغرب، اردن، ایران (جو کہ اس وقت عراق، بلوچستان، کابل، ماورائے نہر خراساں اور بے شمارعلاقوں پر مشتمل تھا) اور 1000سے زائد بلاد فتح فرمائے اور پھر زمین پر عدل وانصاف اور راستی دیانت داری کی اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں۔ ایک طرف مخلوقِ خد ا کے دلوں میں حق پرستی اور پاکبازی پیداہوئی تو دوسری طرف ایسا فلاحی نظام قائم کیا کہ ہر شخص کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کیں حتیٰ کہ جانوروں کے تحفظ کیلئے قوانین وضع فرمائے اور فرمایا اگر نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہریگا۔
    کاش کہ اسلامی ممالک کے حکمران دورِ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو پیش نظررکھ کر نظام حکومت قائم کریں تو نہ صرف اسلامی ممالک میں خوشحالی اور امن و آشتی کی فضا ء پیدا ہوجائیگی بلکہ زمانہ بھر کے غیر مسلم اسلام کے اعلیٰ اور کامل فلاحی وسعاداتِ دارین کے ضامن نظام سے متأثر ہو کر حلقہ بدوش اسلام ہونے لگیں گے۔
    دورِفاروقی کا مرکزی نظام حکومت
    ’’وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘‘ (سورہ شوریٰ: ۳۸) کے تحت اہم امور میں مشاورت ہوتی تھی اور حتمی فیصلے امیر المؤمنین کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو جنرل سیکرٹری ومحافظِ بیت المال مقرر کیا اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو محتسب مقرر کیا۔ احتساب کا سخت ترین نظام تھا۔ بڑی سے بڑی شخصیت قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر احتساب سے بچ نہ سکتی تھی۔ حج کے موقع پر تمام صوبائی گورنروں کی حج میں حاضری لازم تھی۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر سال خود بھی حج میں شریک ہوتے۔ ہر علاقے کے لوگوں کو شکایات کا موقع دیا جاتا اور گورنروں کے خلاف فوری اقدمات ہوتے۔ جلیل القدر صحابی حضرت عمرو بن العاص گورنر مصر کے بارے میں ایک شخص نے شکایت کی، گورنر نے مجھے کوڑوں کی نا حق سزا دلوائی ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حج کے اجتماع میں حضرت عمر وبن العاص کو کوڑے مارنے کا حکم فرمایا جس کے بعد اس شخص نے قصاص کا حق معاف کرنے کا اعلان کیا۔
    امیر المؤمنین اور تمام گورنروں کیلئے لازم تھا کہ ایک عام آدمی کی بود وباش اختیار کریں، ترکی مہنگاگھوڑا استعمال نہ کریں، باریک کپڑے نہ پہنیں، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائیں، جائیداد میں اضافہ نہ کریں، اپنے دروازے عوام پر بند نہ کریں، دروازوں پر محافظ مقرر نہ کریں۔ امیر المؤمنین خود بیت المال سے سال میں کپڑوں کے دو جوڑے اور روزانہ ایک مزدور کا معمولی وظیفہ وصول کرتے۔ آپ کی پہنی ہوئی قمیص کے کندوں پر ہمیشہ پیوند لگے نظر آتے۔ ایک مرتبہ خطبہ جمعہ میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی کہ کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا دھو کر سوکھنے کی انتظار میں تاخیر ہو گئی ہے۔ کفایتِ شعاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے بچے ہوئے ٹکڑوں سے ناشتہ فرماتے، ایک بار عراق سے معزز مہمان آئے تو انہیں بھی رات کے بچے ہوئے ٹکڑے ناشتہ میں پیش کیے تو مہمانوں نے ایک لقمہ کھانے کے بعد کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا۔ صحابہ کرام نے نامناسب سمجھاتوحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے امیر المؤمنین سے بات کرنے کے لئے کہا، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بات کریں۔ صحابہ نے حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا سے بات کی تو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین سے صحابہ کی شکایت کا ذکر کیاتو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی سادگی وکفایت اشعاری اور فقر وفاقہ کا ذکر کیا اور زار وقطار رونے لگے اور عرض کیا: اے ام المؤمنین! رسول اللہ ﷺ کے اسوہ پرعمل ہی بہتر ہے۔
    گورنر مصر حضرت عیاض بن غنیم رضی اللہ عنہ نے پتلا لباس پہنا تو انہیں معزول کر دیا اور کہا بکریاں لے جاؤ اور بکریاں چرایا کرو۔ فاتح ایران جلیل القدرصحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاض رضی اللہ عنہ نے اپنے دفتر کے باہر پہرہ لگایا تو انہیں معزول کردیا۔ آپ کے سالے قدامہ نے شراب نوشی کی تو 80کوڑے حدِ شراب قائم کی۔ سپہ سالار اعظم سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شان میں کسی نے قصیدہ پڑھا تو آپ نے قصیدہ خوان کو انعام دیا تو محمد بن مسلمہ کو بھیجا اور معزولی کے احکام جاری فرمائے۔
    آزادی تنقید کی عام اجازت فرمائی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ سوال کیا کہ آپ نے جو چادریں تقسیم کی ہیں آپ نے ایک سے زیادہ چادر سے اپنا لباس تیار کر وایا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ میرے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے حصے کی چادر مجھے دے دی تھی میں نے کوئی خیانت نہیں کی۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: اگر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام سے ہٹوں تو کیا کرو گے؟ ایک نوجوان نے تلوار سونتی اور کہا: ہم آپ کی گردن کاٹ دیں گے تو آپ رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا: جب تک ایسے نوجوان موجود ہیں کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ نیز فرمایا: ’’اَحَبُّ النَّاسِ اِلیَّ مَنْ رَفَعَ اِلیَّ عُیُوبِیْ‘‘ ترجمہ: تمام لوگوں سے مجھے سب سے پیارا وہ ہے جو میرے عیوب ونقائص میرے سامنے رکھے۔
    کاش! آج حکمران اور علماء ومشائخ اپنے ارد گرد سے خوشامدیوں کا گھیراختم کر کے کھرے اور صاف گو لوگوں کو اپنا مشیر بنائیں۔
    دورِفاروقی میں بے شمار اصلاحات
    اور محکموں کا قیام:
    آپ نے فوج، ڈاک، بیت المال، پیمائش، پولیس اور دیگر محکمے قائم کیے، منزلیں اور سرائیں قائم کرائیں۔ 4000مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے 900جامع تھیں، سن ہجری قائم فرمایا، نمازِ تراویح با جماعت ختم قرآن کے ساتھ شروع فرمائی، مساجد روشنی کا انتظام فرمایا، شہروں میں پہرے مقرر کیے، تاجر کیلئے تعلیم لازم فرمائی، مدارس قائم فرمائے، اساتذہ کے وظائف مقرر فرمائے۔ جب مدارس کی تعلیمی رپورٹ سے پتہ چلا کہ حضرت ابوالدرداء کے مدرسہ جامع مسجد دمشق سے 10 ہزار سے زیادہ حفاظ تیار ہوئے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ اہل کتاب کی عورتوں سے سیاسی طور پر نکاح کرنے سے منع فرمادیا۔ مؤلفۃ القلوب کی بجائے مسلمانوں کو زکوۃ دینے کا حکم فرمایا۔ مسجد نبوی کی توسیع فرمائی اور سادگی برقرار رکھی۔ مسجد حرام کے ارد گرد پہلی بار چار دیواری قائم فرمائی۔ آپ نے یہود کو حجاز مقدس سے نکال دیا اور تمام غیر مسلموں کو گھروں اور ان کی عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی دی لیکن پبلک مقامات پر انہیں تبلیغ کا حق نہ دیا۔ آپ نے صاحب احداث کے نام سے محکمہ پولیس بھی قائم کیا جس کی ذمہ داری عوام اور حکومتی اثاثوں کی حفاظت، امن وامان کا قیام اور تجاوزات پر کنٹرول کرنا ہوتا تھا۔ آپ نے دریائے نیل سے بحیرہ قلزم تک 69میل لمبی نہر، نہر امیر المؤمنین کے نام سے کھدوائی جس میں کشتیاں چلتی تھیں اسی طرح متعدد دیگر نہریں بھی کھدوائیں جن سے ایک نہر ’’نہر ابی موسیٰ اشعری‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
    صوبائی حکومتیں
    آپ نے مکہ مکرمہ ومدینہ منور ہ، شام، جزیرہ، مصر، فلسطین، کوفہ، بصرہ، خراساں، آزربائیجان، فارس اور دیگر مقامات پر صوبائی حکومتیں قائم فرمائیں ہر شہر میں ایک قاضی، ایک معلم، ایک خازن اور ایک حاکم مقرر کرنے کی ہدایات فرمائی گورنروں سے دروازے عوام پر بند نہ کرنے اور انتہائی سادہ طرز زندگی گزارنے اورجائید اد میں اضافہ نہ کرنے کا عہد لیتے اور انتہائی سخت احتساب فرماتے۔
    دورفاروقی میں فوجی نظام
    فوج کا نظام اعشاری تھا ہر دس پر امیر العشر، ایک سوپر قائد اور ایک ہزار پر امیر۔ فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا بصرہ، کوفہ، اردن، طرابلس الغرب میں فوجی چھاؤنیاں قائم کیں جہاں خوراک کا سٹاک ہوتا، گھوڑے اونٹ اور اسلحہ کے ذخائر ہوتے اور گھوڑوں اور اونٹوں پر ’’جیش فی سبیل اللّٰہ‘‘ داغاجاتا۔ آپ نے مجاہدین کے وظائف مقرر فرمائے اور اس موقع پر اصحابِ بدر کا وظیفہ 5000اور اُن کی اولاد کا 2000مقرر کیا لیکن امام حسن وامام حسین رضی اللہ عنہما اور حِبِّ رسول حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ اصحاب بدر کے برابر رکھا اور اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا وظیفہ امام حسن وامام حسین رضی اللہ عنہما اور حِبِّ رسول حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کم 2000روپے رکھا۔ فوجی بھرتی کیلئے زیادہ تر مدینہ منورہ کو مرکز بنایا گیا اور ہر سال 30ہزار فوجی بھرتی کیے جاتے اگر دشمن کی تعداد 2لاکھ ہوتی تو چالیس ہزار مجاہدین سے زائد مقابلہ میں نہ بھیجتے۔
    امیر المؤمنین خود پوری فوج کے کمانڈر انچیف تھے اور تمام بڑی جنگوں میں جنگ کا نقشہ خود بناتے اور اسکے ساتھ ہدایات بھیجتے رہتے۔ آپ نے سپر طاقت ایران سے جنگ قادسیہ کے موقع پر خود جنگ میں قیادت کا اظہار کیا لیکن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سمیت اکابر صحابہ نے آپ کو مدینہ منورہ سے نہ جانے دیا تو آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو سپہ سالار، حضرت زبیر کو میمنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف کو میسرہ اور حضرت طلحہ کو مقدمۃ الجیش پر امیر مقرر کیا اور میدانِ جنگ کا نقشہ خود تیار کیا۔
    آپ کی سیرت طیبہ کی ایک جھلک
    2251030 مربع میل ریاست کے امیر ہونے کے باوجود آپ فقیر صفت، دلق پوش اور بیت المال سے ایک مزدور کے برابر وظیفہ لینے والے حاکم تھے۔ ایک بار قیصرِ روم کا ایلچی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اوریہ دیکھ کر کہ آپ ایک مزدور کے لباس میں مسجد میں سرہانے اینٹ رکھ کر قیلولہ فرمارہے ہیں نہ کوئی سیکورٹی ہے نہ پہرے دار، ایسا متأثر ہوا کہ واپس جا کر پھر مدینہ منورہ آیا اور اسلام قبول کر لیا۔
    جب بیت المقدس فتح ہوا تو آپ بیت المقدس تشریف لے گئے قمیص پر 14 پیوند تھے خود پیدل اور خادم گھوڑے پر سوارتھا۔ صحابہ نے اچھا لباس پہننے پر اصرار کیا تو فرمایا اللہ نے یہ عزت لباس کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے عطا فرمائی ہے۔
    ایک بار رات کو گشت کے دوران ایک بچے کے رونے کی آواز سنی صبح اس بچے کے والد کو مسجد میں طلب کیا اور بچے کے رونے کی وجہ دریافت کی تو بچے کے والد نے بتایا امیر المؤمنین ہم نے بچے کا دودھ وقت سے پہلے چھڑا دیا ہے کیونکہ امیر المومنین بچے کا دودھ چھڑانے کے بعد بچوں کا وظیفہ مقررکرتے ہیں تو آپ بہت روئے اورکہا: اے عمر! تجھ پر افسوس تیرے اس فیصلے کی وجہ سے کتنے بچوں کو وقت سے پہلے دودھ چھڑا دیا گیا ہوگا اسی وقت فیصلہ صادر فرمایا کہ آج کے بعد بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ مقرر کر دیا جائیگا۔ آج برطانیہ اور بعض ممالک میں جو بچوں کو وظائف دیئے جاتے ہیں اسے برطانیہ میں ’’عمر لاء‘‘(Umar Law)کہا جاتا ہے۔ آپ نے بچوں کے ساتھ اپاہجوں اور بے سہار لوگوں کے وظائف بھی مقرر فرمائے۔
    ایک بار مدینہ منورہ میں رات کو گشت فرمارہے تھے کہ ایک مسافر کو پریشان حال دیکھا ساتھ ہی خیمہ سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی تھی بڑا اصرار کیا تو مسافر نے بتایا امیر المؤمنین سے ملنے آئے ہیں رات ہو گئی اور میری بیوی کے ہاں بچہ ہونے والا ہے اوریہاں کوئی جاننے والا نہیں تو اسی وقت اپنی اہلیہ کو ضروری اشیاء وخوراک کے ساتھ لے کر آئے، خیمہ کے اندر سے آپ کی اہلیہ نے آواز دی: اے امیر المؤمنین! آپ اپنے ساتھی کو بیٹے کی خوشخبری دیں تو وہ مسافر یہ جان کر کہ امیر المؤمنین اپنی بیوی کے ہمراہ میرے اہل خانہ کی خدمت کر رہے ہیں انتہائی حیران رہ گیا۔
    ایک بار ایک خاتوں اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملا کر بیچنے کی ترغیب دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی: امیر المؤمنین کو دودھ میں پانی ملانے کی خبر نہیں ہو گی یہ کام کر لو تو بیٹی نے کہا: اماں جی! امیر المؤمنین نہیں دیکھ رہے لیکن امیر المومنین کا اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ آپ گشت کے دوران ماں بیٹی کا یہ مکالمہ سن رہے تھے، صبح اپنے بیٹے عاصم کو اس خدا خوف لڑکی سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا، چنانچہ ان کے ہاں ایک بیٹی اُم عاصم نامی پیدا ہوئی جس کے بطن سے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز پیدا ہوئے جنہوں نے بنو امیہ کے دورِ حکومت میں حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی درویشانہ صفت حکومت کی یادیں تازہ فرما دیں۔
    خوفِ خدا کایہ عالم تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’اگر آسمان سے آواز آئے کہ ایک شخص کے سوا سب کو بخش دیا گیا ہے توپھر بھی میں روزِقیامت میں حساب وکتاب سے بے خوف نہیں رہوں گا۔‘‘ ایک بار کسی نے شہد پیش کی تو منہ کے قریب لا کر منہ سے ہٹا دی فرمایا: ’’اس کی مٹھاس وذائقہ تو ختم ہو جائیگا لیکن اس کا حساب ذمہ سے ختم نہیں ہو گا۔ لہذا کسی اور کو دے دو۔‘‘ ایک بار علاج کیلئے شہد کی ضرورت تھی تو مسجد آئے اور شوریٰ سے بیت المال سے تھوڑی سی شہد لینے کی اجازت حاصل کی۔ ایک بار آپ کے پاس چادریں آئیں تو کسی نے کہا: اپنی اہلیہ ام کلثوم بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ایک چادر بھیج دیں۔ تو فرمایا: اُم سلیط ایک مستحق عورت ہے وہ اس چادر کی زیادہ حقدار ہے۔ اتنی سادہ غذا کھاتے کہ چہرے پر لکیریں پڑ گئیں اور ایک بار قحط پڑا رتو گوشت گھی اور ترکاری سب کچھ بند کر دیا۔ زیتون سے روٹی کھاتے۔ ایک دفعہ ایک حاکم عتبہ بن فرقد نے نفیس حلوہ بھیجا تو واپس کر دیا اور فرمایا: یہ بیت المال کی امانت ہے جب سب لوگ حلوہ کھائیں گے تو پھر امیر المؤمنین کے لئے حلوہ مباح ہو گا۔
    آپ نے خلیفہ بنتے ہی اپنی پسندیدہ بیویوں کو طلاق دے دی تاکہ مجھ سے کوئی عورت سفارش نہ کرے۔ جب شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو گرفتار ہو کر آئیں تو اُن کا نکاح اپنے بیٹے کی بجائے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے 9بیٹے تھے، کسی کو کسی جگہ گورنرتو کجا منشی بھی مقرر نہ فرمایا۔ بیت المال کا اونٹ گم ہوا تو سخت گرمی میں خود تلاش کرنے نکلے اور کہا اس کا حساب مجھ سے ہونا ہے۔
    جنگ بدر میں اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کر کے غیرتِ اسلامی کا عظیم مظاہرہ فرمایا، جنگ بدر میں قیدیوں کے بارے میں آپ ہی نے مشورہ دیا کہ ان اعداء اسلام کو قتل کر دیا جائے اور ہر مسلمان اپنے رشتہ دار قیدی کو خود قتل کرے۔ ایک بار کسی نے ’’وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت‘‘(تکویر: ۱۰) ترجمہ: جب نامہ اعمال کے رجسٹر کھولے جائیں گے، پڑھا تو بے ہوش ہوگئے۔ ایک بار فرمایا: کاش کہ میں پیدا نہ ہوتا۔ ایک بار فرمایا: کاش کہ میں انسان کی بجائے ایک تنکا پیدا کیا جاتا۔ کسی نے تلاوت کی: ’’اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ‘‘ (طور:۷) ترجمہ: تیرے رب کا عذاب ضروروقوع پذیر ہونے والا ہے۔ یہ آیت سن کر سواری سے اترے اور کافی دیر انتہائی پریشان بیٹھے رہے۔ آپ بیوگان اور یتیموں کیلئے پانی خلافت سے پہلے اور بعد از خلافت اپنے کندھوں پر اٹھا کر گھروں میں پہنچاتے۔ ایک بار حضرت عباس کے پرنالے سے ذبح شدہ مرغ کا خون بہہ رہا تھا تو اس پر نالے کو اکھاڑنے کا حکم دیا تاکہ گزرنے والوں کے کپڑے آلود نہ ہوں تو حضرت عباس رضی اللہ نے فرمایا: یہ وہ پرنالہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے نصب فرمایا تھا تو فوراً فرمایا: اے عباس! میرے کندھے پر کھڑے ہو کر یہ پر نالا اسی جگہ نصب کرو۔
    کرامات
    1) مثالی ریاضت ومجاہدہ کی وجہ سے روحانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار فارس کے دور دراز علاقے ’’نہاوند‘‘ میں مسلمان جہاد کر رہے تھے اور آپ خطبہ جمعہ دے رہے تھے تو فرمایا: ’’یَاسَارِیَۃَ الْجَبَلَ‘‘ ترجمہ: اے ساریہ پہاڑ کے ساتھ ہو جاؤ۔ لوگوں نے کہا: شاید آپ کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا۔ آپ نے دوران خطبہ کیا کہہ دیا تو فرمایا: کہ میں نے دیکھا کہ کفار لشکر اسلام کو گھیرے میں لے رہے ہیں تو میں نے فورًا کہا: پہاڑ کی پناہ لے لو تو اللہ تعالیٰ نے کفار کی سازش ناکام بنادی اور مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار فرما دیا ہے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ایک شخص فتح کی خوشخبری لے کر آیا اس نے بتایا کہ ہم نے جہاد کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تھی اور اس پر عمل کیا تھا تو اللہ نے فتح عطا فر ما دی۔
    2) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خط لکھا کہ مصرمیں لوگ ہر سال دریائے نیل میں ایک لڑکی کو بناؤ سنگھار کر کے ڈالتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس رسم کی ادائیگی کے بغیر دریائے نیل میں پانی نہیں چڑھتا۔ امیر المؤمنین حکم فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟ تو آپ نے اس کافرانہ رسم کو ختم کرنے کا حکم دیا اور ایک رقعہ لکھا:
    ’’ِمنْ عَبْدِ اللّٰہِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عُمَرَ اِلَی نِیْلِ مِصْرَ فَاِنْ کنُْْتَ تَجْرِیْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَاِنَّا نَسْءَلُ اِجْرَاکَ مِنَ اللّٰہِ وَاِنْ کنُْْتَ تَجْرِیْ مِنْ عِنْدِکَ فَلَاحَاجَۃَ لَنَا بِک۔‘‘
    ترجمہ: ’’یہ خط اللہ کی بندہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب کی طرف سے دریائے نیل کے نام ہے اگر تو اللہ کے حکم سے چلتا ہے تو ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ تجھے جاری کر دے اوراگرتو خود بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں۔‘‘
    چنانچہ گورنر مصر بیشمار لوگوں کے ہمراہ امیر المؤمنین عمر کا یہ رقعہ لے کر دریائے نیل پر پہنچے اور رقعہ دریا میں ڈالا تو دریا میں پہلے سے بہت زیادہ پانی آیا اور کافرانہ رسم ختم ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء)
    3) ایک بار مدینہ شریف کے قریب ایک کنویں سے گیس نکلی تو جنگل میں آگ لگ گئی اور مدینہ منورہ کی طرف پھیلنے لگی تو امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی چادر سے آگ کو دھتکارتے ہوئے کنویں تک لے گئے اور آگ بجھ گئی
    4) ایک بار زلزلہ آیا تو پاؤں زمین پر مارا اور فرمایا: ’’اے زمین تھم جا کیا میں تجھ پر عدل نہیں کررہا‘‘ تو اسی وقت زلزلہ ختم ہو گیا۔
    5) ایک بار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک عورت کجھور کی ٹوکری لے کر بارگاۂِ نبوی میں حاضر ہوئی اور آپ ﷺ نے حضرت علی کو ایک کجھور عطا فرمائی ہے۔
    صبح نمازِ فجر کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ ایک عورت کجھور کی ایک ٹوکری لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کو ایک کجھور دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! مجھے ایک کجھوراور دیں تو فرمایا:
    ’’لَوْزَادَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَزِدْنَاک۔‘‘
    ترجمہ: اگر خواب میں رسول اللہ ﷺ تمہیں زیادہ دیتے تو ہم بھی زیادہ دیتے۔
    جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حیران رہ گیا کیونکہ میں نے اپناخواب کسی کو بتایا ہی نہ تھا۔
    شہادت اور روضہ رسول میں تدفین:
    حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 26ذوالحج 23 ؁ ھ بروز بدھ آپ مسجد نبوی مین نمازِ فجر کی پہلی رکعت میں قراء ت فرما رہے تھے کہ ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ لعین نے آپ کو دو دھاری خنجر سے شدید زخمی کیا۔ جس کے بعد یکم محرم الحرام کو آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا اور روضہ رسول میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک سے دو ہاتھ نیچے رکھ کر دفن کیے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن!
    سبحان اللہ! حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی تدفین میں بھی ادبِ نبوی کو ملحوظ رکھا رکھا گیا اور برابر تدفین نہ کی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک ہاتھ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان سے ایک ہاتھ نیچے دفن کیا گیا۔
    آپ نے شدید زخمی حالت میں چھ اشخاص حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ الرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہم) کے بارے میں فرمایا: اِن چھ اشخاص سے رسول اللہ ﷺ وفات کے وقت بہت خوش تھے اور میں خلافت کا معاملہ اِن کے سپر د کرتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کثرت رائے کی بنیاد پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان کیا۔
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمادیں تو سخت ناراض ہوئے۔ اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے قرض کا حساب کرو حساب ہوا تو قرضہ 86000درھم تھا فرمایا میرا مکان بیچنا اور قرضہ ادا کرنا اگر مکان سے پورا نہ ہوتو میرے اہل وعیال قرضہ ادا کریں اور اگر نہ کر سکیں تومیرے خاندان بنو عدی کے لوگ وگرنہ پھر قبیلہ قریش قرضہ ادا کریگا۔ سبحان اللہ! حکومت راشدہ کا کمال ہے کہ آج کے پچاس ملکوں کے برابر ریاست کا حاکم ہونے کے باوجود مقروض ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہور ہے ہیں۔
    اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے زخمی حالت میں کہا: اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ! اب امیر المؤمنین نہ کہنا بلکہ کہنا عمر عرض کرتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کیساتھ تدفین کی اجازت چاہتا ہے۔ حضرت اُم المومنین نے فرمایا: یہ جگہ تو میں نے اپنے لئے سوچی تھی لیکن میں امیر المومنین حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہ واپس آئے تو فرمایا: مجھے اٹھاؤ پھر فرمایا: کیا خبر ہے: عرض کی اے امیر المومنین جو آپ پسند کرتے ہیں۔ تو آپ نے کہا: ’’اَلْحَمْدُِ للّٰہِ! مَاکَانَ شَیْءٌ اَھَمَّ مِنْ ذاَلِکَ اِلَیَّ‘‘ ترجمہ: الحمد للہ! کوئی شئی اس سے میرے نزدیک زیادہ اہم نہیں تھی۔ پھر فرمایا: میری شہادت کے بعد پھر اُم المؤمنین سے پوچھنا اگر اجازت دیں تو فَبِھَا وگرنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اکثر دعا کرتے تھے ’’اللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِک وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِک‘‘ (بخاری) ترجمہ: اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت کا رزق عطا فرما اور میری موت اپنے رسولﷺ کے شہر میں فرما۔ چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا من وعن قبول فرمائی اور آپ کی شدید خواہش کے مطابق آپ روضہ رسول میں آپ ﷺ کے پہلو میں دفن ہوئے۔​


     

Share This Page