Letter of a Sufi Sheikh Towards his Deciple about Towheed

Discussion in 'Tasawwuf / Adab / Akhlaq' started by Resonant, Mar 22, 2008.

Draft saved Draft deleted
  1. Resonant

    Resonant New Member

    توحید چوتھا درجہ: کثرتِ اذکار و اشغال و ریاضت و مجاہدہ کے بعد ترقی کرتے کرتے سالک یہاں تک ترقی کرتا ہے کہ بعض وقت شِش جہت میں اللہ تعالٰے کے سوا اس کو کچھہ نظر نہیں آتا۔ تجلیات صفاتی کا ظہور اس شدَت سے سالک کے دل پر پوتا ہے کہ ساری ہستیاں اُس کی نظر میں گُم ہو جاتی ہیں۔ جس طرح ذرَے آفتاب کی پھیلی ہوئی روشنی میں نظر نہیں آتے۔ دھوپ میں جو ذرَہ دکھائی نہیں دیتا اِس کا یہ سبب نہیں کہ ذرَہ نیست ہو جاتا یا ذرَہ آفتاب ہو جاتا ہے، بلکہ جہاں آفتاب کی پوری روشنی ہوگی ذرَوں کو چھپ جانے کے سِوا چارہ ہی کیا ہے۔ جس وقت روشندان تابدان وغیرہ سے دھوپ کوٹھری یا سائبان میں آتی ہے، اس وقت ذرَوں کا تماشا دیکھو، صاف نظر آتے ہیں۔ پھر آنگن میں نِکل کر دیکھو غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بندہ خدا نہیں ہوتا تعالیَ اللہُ عَنْ ذلك عُلُواً كبيراً [ یعنی اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند تر ہے]۔ اور نہ ہوتا ہے کہ بندہ درحقیقت نیست ہو جاتا ہے، نابود ہونا اور چیز ہے اور نہ دیکھا جانا اور شئے ہے۔ نظم
    پیشِِ توحیدِ او نہ کہنہ نہ نوست ہمہ ہیچ اند ہیچ اوست کہ اوست
    کے بود ماز ما جُدا ماندہ من و تو رفتہ و خُدا ماندہ

    [یعنی اُس توحید کے سامنے نیا اور پُرانا کیا سب ہیچ ہی ہیچ ہے۔ وہ وہی ہے جیسا کہ وہ ہے۔ لفظ ما سے ما کب تک الگ رہے گا۔ من و تو بیچ سے اُٹھہ گیا اور خُدا باقی رہ گیا]۔
    یا یوں سمجھو کہ عالم ایک آئینہ ہے۔ اِس آئینے میں سالک کو بعض بعض وقت خدا ہی نظر آتا ہے۔ خُدا کے مشاہدے میں سالک ایسا مستغرق ہو جاتا ہے کہ عالم جو آئینہً حیرت ہے اُس کو نظر نہیں آتا۔ اِس سے اور آسان مثال سنو۔ تُم خود آئینہ دیکھو اور اپنے جمال پر پر محو ہو جاؤ پھر دیکھو تو سہی آئینہ تمہاری نظر سے ساقط ہو جاتا ہے یا نہیں۔ ضرور ساقط ہو گا۔ ایسے موقع پر کیا تُم کو کہنے کا حق ہو گا کہ آئینہ نیست ہو گیا ہے۔ یا آئینہ جمال ہو گیا ہے یا جمال آئینہ ہو گیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ نیست ہونا اور ہے نہیں دِکھائی دینا اور ہے۔ جس کی نظر میں آفتابِ انوارِ حق اِس شان سے ظہور کرے گا اُس کی نظر میں ساری ہستیاں نہ ہونگیں تو کیا ہونگیں۔ قدرت کا مقدورات میں دیکھنا بِلا فرق اسی طرح پر ہوتا ہے۔ صوفیوں کے یہاں اِس مقام کا نام الفناءُ في التوحيد یعنی توحید میں فنا ہو جانا ہے۔
    گوید آنکس درین مقام فضول کہ تجلّی نہ داند اوزحُلول
    [ یعنی وہ شخص یہاں فضول بَکتا۔ کیونکہ وہ تجلّی اور حلول کا فرق نہیں پہچانتا]
    اِس مقام میں اگر شطحیات سالک سے سرزد ہوں گے[گی] تو اس کی خامی سمجھی جائے گی۔ اِس میں شک نہیں کہ خدا کی تجلّی ہوتی ہے۔ اور خدا اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ مگر انسان میں حلول نہیں کرتا۔ اس مقام میں پہنچ کر سیکڑوں سالک پھسل کر گر چُکے ہیں۔ اس خوفناک جنگل سے جان سلامت لے جانا بغیر تائیدِ غیبی و عنایتِ ازلی نا ممکن ہے۔ اور پیر کی مدد بھی ضروری ہے۔ جو پیر حق رسیدہ ہو، صاحبِ بصیرت ہو، نشیب و فراز سے واقف ہو۔ شربت قہرِ جلال اور لطفِ جمال کا مزہ چکھہ چُکا ہو۔ تاکہ اس ورطہً ہلاکت سے مرید کو نکال سکے ۔ دیکھو حضرت خواجہ ابراہیم خواص رحمتہ اللہ علیہ جو مقامِ توکل کے بادشاہ ہیں۔ ایک دفعہ حضرت خواجہ منصورحلاّج رحمتہ اللہ علیہ نے اُن کو دیکھا کہ بے زاد و راحلہ بادیۃ خونخوار میں گشت کر رہے ہیں۔ پوچھا، یہاں آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ مقامِ توکّل میں ثابت قدمی کا امتحان دے رہا ہوں۔ چونکہ اہلِ توحید کے نزدیک مقامِ توکّل توحید کے مقامات میں سے ایک ادنٰی درجہ کا مقام ہے۔ بتقاضاے خلوص آپ کو ہمدردانہ جلال آگیا۔ اور عبارتِ لطیف کی کے ساتھہ اس مقامِ توکّل سے ترقی کرنے کی یوں ہمت دلائی:-
    ضَيعَتْ عُمرَكَ فى عِمْرانِ باطِنِكَ فاَينَ الفنآءُ فى التوحيد۔ [ یعنی اگر عمراسی مقامِ توکّل کی داد دینے میں تمام ہوگئی تو درجئہ کمالِ توحید کب حاصل ہو گا]۔ اب تم سمجھہ سکتے ہو کہ راہِ توحید میں یارِ موافق اور پیرِ مشفق کی کِس وقت تک کِس درجہ ضرورت ہے۔
    بہر کیف درجہ چہارم کی توحید میں سالکوں کے احوال مختلف ہیں۔ کسی پر ہفتہ میں ایک ساعت کے لئیے فنائیت طاری ہوتی ہے کسی پر ہر روز ایک ساعت یا دو ساعت۔ کسی پر بیشتر اوقات عالمِ اِستغراق رہتا ہے۔
    فنا فی التوحید کے بعد ایک مرتبہ ہے جس کا نام الفنآءُ عنِ الفنآءِ ہے۔ اس مرتبہ کو بھی تعلق درجہ چہارم سے ہے۔ یعنی اس درجہ کا نام مرتبہً اکمل میں الفنآءُ عنِ الفنآءِ ہے۔ اسی لئیے اس کو درجہً پنجم نہیں کہا گیا۔ اس مرتبہ میں سالک کی حالت یہ ہوتی ہے کہ کمالِ استغراق کی وجہ سے اس کے احساس کو اپنی فنائیت کی خبر نہیں ہوتی۔ اور نہ اُس کی آگاہی باقی رہتی ہے کہ ہم فنا ہوئے۔ یہاں تک کہ جمالی و جلالی تجلّی کا فرق بھی نظر نہیں آتا۔ ایک جُنبش میں غائب ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ کسی قسم کا عِلم باقی نہیں رہتا۔ اہلِ طریقت کے نزدیک تفرقہ کی دلیل ہے۔ مقامِ عین الجمع و جمع الجمع جب ہی حاصل ہوگا کہ سالک اپنے کو اور کُل کائنات کو ظہورِ حق کے دریائے نور میں گُم کر دے اور اس کی خبر بھی نہ رکھے کہ گُم کون ہوا۔
    تو در و گُم شو کہ توحید این بود گُم شدن گُم کن کہ تفرید این بود
    [ تو اس میں کھو جا یہی توحید ہے اور کھو جانے کو بھی بھول جا۔ ۔ ۔ ۔ اس کا نام تفرید[1] ہے]۔
    اس مقامِ تفرید میں پہنچ کر حقیقتِ وحدت الوجود اس طرح منکشف ہوتی ہے کہ سالک محو ہو جاتا ہے۔ تجلّیِ ذاتی کُل قصّوں کو طے کر دیتی ہے۔ اسم و رسم، وجود و عدم، عبارت و اشارت، عرش و فرش، اثر و خبر اس عالم اور اس دیار میں کُچھہ نہ پاؤگے۔ كٌلُّ مَن عَلَيْهَا فَان [ یعنی یہاں ہر چیز کو فنا ہے]۔ اس مقام کے سِوا اور کہیں جلوہ گر نہیں ہوتا۔ كٌلٌّ شَئٍ هاِلكُ الاَّ وجههٌ [ یعنی ہر چیز مِٹ جانے والی ہے مگر اُس کی ذات]۔ اس جگہ کے سوا اور کہیں صورت نہیں دکھاتا۔ انا الحق وسٌبحانى مآ اعظم شانى [ یعنی پاک ہوں اور میری شان بہت بڑی ہے] یہاں کے سوا کہیں اور اس کا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔ توحید بے شرکِ مطلق جو تُم نے سُنا ہے، وہ اس دار الملک کے سوا اورکہیں نہ دیکھہ پاؤگے۔
    خیالِ کژمپژ اینجا دلبشناس ہر آن کُو در خدا گُم شُد خدا نیست
    [ یعنی یہاں دِل میں اُلٹا خیال نہ لاؤ، اور سمجھو کہ، جو خدا کی ذات میں کھو گیا، وہ خدا نہیں]۔
    توحیدِ وجودی علم کے درجہ میں ہے، یا شہود کے ابتدائی درجہ سے انتہائی درجہ تک پہنچے ہر مرتبہ میں بندہ بندہ ہے، خدا خدا ہے۔ اسی لئیے انا الحق و سُبحانی مآ اعظم شانی وغیرہ کہنا اگر صدقِ حال نہ ہو تو خود اہلِ طریقت کے نزدیک یہ کلمات کفریہ ہیں۔ اور جہاں صدقِ حال ہے۔ ہے شک وہاں کمالِ ایمان کی دلیل ہے۔
    روا باشد انا اللہ از درختے چرا نہ بود رَوا از نیک بختے
    [یعنی ایک درخت سے انا اللہ کی صدا نکلنا جب درست ہے تو اگر کسی نیک بخت کے مُنھہ سے یہی آواز نکلے تو کیوں صحیح نہ ہوگی]۔
    خیر اس کو تو ہم پہلے ہی کہہ چُکے کہ آئینہ و صورت کے درمیان اتحاد کا دعویٰ صحیح نہ حلول کا زعمِ باطل درست۔ اب تُم چاروں درجوں کی توحید میں جو فرق ہے وہ اس مثال سے سمجھہ سکتے ہو۔ اخروٹ میں دو قسم کے پوست اور ایک قسم کا مغز ہوتا ہے۔ پھر مغز میں روغن ہے۔
    ۱۔ منافقوں کی توحید پہلے چھلکے کے درجے میں ہے۔ کیونکہ یہ چھلکا کسی کام کا نہیں ہوتا۔
    ۲۔ عام مسلمانوں کی توحید دوسرے چھلکے کے درجے میں ہے، یہ کچھہ کارآمد ہوتا ہے۔
    ۳۔ عارفانہ توحید مغز کے درجہ میں ہے، اسکا فائدہ اور اسکی خوبی ظاہرہے۔
    ۴۔ موحدانہ توحید روغن کے درجہ میں ہے۔ اسکی تعریف کی حاجت نہیں۔ دیکھو اخروٹ تو پورے مجموعہ کو کہتے ہیں، مگر پہلے چھلکے سے روغن تک جو فرق ہے وہ صاف روشن ہے۔ اسی طرح توحید تو ہر توحید کو کہتے ہیں۔ مگر درجات، ثمرات، قاعدے ضابطے میں ہزار در ہزار ہیں۔
    اے بھائی یہ مکتوب معمولی نہیں۔ اسی میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اچھی طرح اس کو دیکھو اور اسکی تَہ کو پہنچو۔ کیونکہ یہ مکتوب جڑ ہے تمام مقامات و احوال و معاملات و مکاشفات کی۔ جب تم کلمات مشائخوں کے دیکھو یا اُن کے اشارات پر تمھاری نظر پڑے، یا اُن کی کتابیں دیکھنے میں آئیں۔ اگر اس مکتوب کے اصول کو ملحوظ رکھوگے تمھیں غلط فہمی نہ ہوگی۔ ٹھیک ٹھیک سمجھہ لوگے۔ اشعاریہ توحیدیہ مشائخِ طریقت رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو اپنے درجہ کے اعتبار سے نظم فرمائے ہیں وہ بھی اسی اصول و قانون سے سمجھے جائیں گے۔ اور کہیں سے کسر نہ ہوگی۔
    اے برادرِ عزیز بہت ممکن ہے کہ اہلِ توحید کی حالتوں کو دیکھہ اور سُن کر تمھیں غبطہ[2] ہو اور حسرتِ نایافت بے کل کر دے اور شکستہ خاطر ہو کر تم نومید ہو جاوً۔ نہیں نہیں بلند ہمّتی سے کام لو۔ ہم نے مانا تم چیونٹی کی طرح خاکسار سہی، مگر دِل حضرت سلیمان [علیہ السلام] کے ایسا پیدا کرو۔ اور اس راہ میں قدم رکھو۔ ہم نے فرض کیا کہ مچّھر کی طرح منحنی ہو، لیکن جگر شیر کا بنا ڈالو اور منزلِ مقصود کی تلاش میں گام زنی شروع کر دو۔ تُم دیکھتے نہیں کیا سی کیا ہوا اور کیا کیا ہو رہا ہے۔ سات سات برس لاکھہ برس کی طاعت و عبادت کو بادِ بے نیازی نے اس طرح اُڑا پھینکا ہے کہ ہباء منشورا ہو کر رہ گئی۔ اپنی خرابیوں کو تم نہ دیکھو اس بات کو دیکھو کہ آب و خاکِ بے مقدار سے حضرت آدم صفی اللہ کیسے پیدا ہو گئے۔ ایک ہستی جس کے کفیل ابوطالب تھے وہ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] رسول اللہ کیونکر ہوگئی۔ آزر بُت تراش کے گھر مین حضرت ابراھیم [علیہ السلام] خلیل اللہ کا وجود کس طرح ظہور پزیر ہو۔ سُبحان اللہ و بحمدہِ۔ اور اس بات کا تماشا دیکھو کہ مشرکوں سے موًحدین، کافروں سے موًمنین، عاصیوں سے مُطیعین، مُفسِدوں سے مصلحین ہو کرتے ہیں۔ قدرت کسی کی طاعت پر نظر نہیں کرتی۔ لُطف کسی کی معصیت کو نہیں دیکھتا۔
    نقل ہے ایک زنّار دار اپنے زنّار کو آراستہ کر رہا تھا۔ غیب سے ایک بھید ظاہر ہوا۔ جس سے زنْار کی حقیقت اُس پر کُھل گئی۔ گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ حالت یہ تھی کہ دوڑتا جاتا تھا اور نعرہ مارتا تھا اَین اللہ۔ اللہ کہاں ہے؟ اس انکشافِ راز کے باعث ایسا سوزِ دروں پیدا تھا کہ اس کو ذرا قرار نہ تھا۔ یہاں سے وہاں اس شہر سے اس شہر مارا مارا پھرتا تھا۔ اسی طرح گرتا پڑتا ملکِ شام میں جبل لبنان پر پہنچا۔ اس پہاڑ پر غوث، قطب، ابدال، اوتاد و غیرہم رہا کرتے ہیں۔ جا کر کیا دیکھتا ہے کہ چھہ آدمی کھڑے ہیں۔ اور ایک جنازہ سامنے رکھا ہے۔
    یہ غریب بدحال ان لوگوں سے واقعہ دریافت کرنے لگا۔ ان لوگوں نے کہا واقعہ پیچھے پوچھیے گا، پہلے نمازِ جنازہ کی امامت تو کیجیے۔ خدا کی شان وہ بے تکلف آگے بڑھ گیا اور نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ جب نماز پڑھا چکا تو وہ لوگ کہنے لگے ہم لوگ ان سات آدمیوں میں سے ہیں جن پر سارے عالم کے کُل کاروبار کا دارومدار ہے۔ اور جس میت پر آپ نے نماز پڑھی ہے وہ ہمارے روشن ضمیر پیر تھے۔ قطبِ عالم کے عہدے پر فائز تھے۔ وقتِ انتقال یہ وصیت فرمائی تھی کہ غسل وغیرہ سے جب فراغت ہو جائے تو جنازہ رکھہ کر تھوڑا انتظار کرنا۔ ایک صاحب اس گوشے سے آئیں گے۔ ان سے کہنا کہ نماز آپ ہی پڑھائیں۔ کیونکہ ہمارے بعد قطبیت کا درجہ اُنھیں حضرت سلامت کو ملے گا۔ والسلام
     
  2. Resonant

    Resonant New Member

    پہلا مکتوب – توحید کے بیان میں

    میرے عزیز بھائی شمس الدین تُم کو اللہ تعالی دونوں جہان میں عزت دے۔ معلوم ہونا چاہیۓ کہ بزرگوں کے نزدیک از روۓ شریعت وطریقت وحقیقت ومعرفت اجمالا توحید کے چار دَرجے ہیں۔ اور ہر درجے میں مختلف حالت اہل توحید کی ہـوا کرتی ہے۔

    توحید کا پہلا درجہ: یہ ہے کہ ایک گروہ فقط زبان سے لا الہ الااللہ کہتا ہے مگر دل سے رسالت وتوحید کا منکر ہے۔ ایسے لوگ زبان شرع میں منافق کہے جاتے ہیں۔ یہ توحید مرنے کے وقت یا قیامت کے دن کچھـ فائدہ بخش نہ ہوگی۔ سراسر وبال اور نکال آخرت کا باعث ہوگی۔

    توحید کا دوسرا درجہ: اسکی دو شاخیں ہیں۔ ایک گروہ زبان سے بھی لا الہ الااللہ کہتا ہے اور دل میں بھی تقلیدا اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے کوئی اسکا شریک نہیں۔ جیسا کہ ماں باپ وغیرہ سے اس نے سنا ہے اسی پر ثابت قدم ہے۔ اس جماعت کے لوگ عام مسلمانوں میں ہیں۔ دوسرا گروہ زبان سے بھی لا الہ الااللہ کہتا ہے اور دل میں اعتقاد صحیح رکھتا ہے۔ علاوہ اس کے علم کی وجہ سے اللہ تعالی کی وحدانیت پر سیکڑوں دلیلیں بھی رکھتا ہے۔ اس جماعت کے لوگ متکلمین، یعنی علماے ظواہر کہلاتے ہیں۔
    بیت

    رو دیدہ بدست آر کہ ہر ذرۂ خاک حامیست جہاں نما کردردے گری؟

    (یعنی جاؤ آنکھیں حاصل کرو۔ خاک کا ہر ذرّہ ایک پیالہ ہے جس میں سارا جہاں دکھائی دیتا ہے۔)
    عام مسلمان ومتکلمین، یعنی علماے ظاہر کی توحید وہ توحید ہے کہ شرک جلی سے نجات پانا اس سے وابستہ ہے۔ سلامتی وثبات آخرت سے مُلحق ہے۔ خلود و دوزخ سے رہائی، بہشت میں داخل ہونا اس کا ثمرہ ہے۔ البتہ اس توحید میں مشاہدہ نہیں ہے۔ اس لیے ارباب طریقت کے نزدیک اس توحید سے ترقی نہ کرنا، ادنٰی درجہ پر قناعت کرنا ہے۔ عليكم بدين العجائز( یعنی بوڑھی عورتوں کے دین کو اختیارکرنا لازم سمجھو) ایسے موقع پر کہا کرتے ہیں۔

    توحید کا تیسرا درجہ:موّحد مومن بہ اتباع پیر طریقت مجاہدہ وریاضت میں مشغول ہے۔ رفتہ رفتہ یہ ترقی اس نے کی ہے کہ نور بصیرت دل میں پیدا ہو گیا ہے۔ اس نور سے اس کو اس کا مشاہدہ ہے کہ فاعل حقیقی وہی ایک ذات ہے۔ سارا عالم گویا کٹھہ پُتلی کی طرح ہے۔ کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ ایسا موًحّد کسی فعل کی نسبت کسی دوسری طرف نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ دیکھـ رہا ہے کہ فاعلِ حقیقی کے سوا دوسرے کا فعل نہیں ہے۔ بیت

    درین نوع ہم شرک پوشیدہ است کہ زیدم بیازرد وعمرم بکشت

    (یعنی اس میں بھی شرک چھپا ہوا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ مجھـ کو زید نے ستایا اور عمرو نے مار ڈالا)۔
    اب ہم ایک مثال دیتے ہیں اِس سے توحیدِ عامیانہ، توحیدِ متکلمانہ اور توحیدِ عارفنہ سبھوں کے مراتب کا فرق صاف ظاہر ہو جائے گا۔
    مثال- کِسی سرائے میں ایک سوداگراُترا۔ اُس کی شُہرت ہوئی۔ لوگ اُس کا مال و اسباب دیکھنے کو چلے اور ملاقات کے خواہاں ہوئے۔
    ایک شخس نے زید سے پوچھا۔ بھئی تم کُچھہ جانتے ہو۔ فلاں سوداگر آیا ہوا ہے۔ زید نے کہا ، ہاں یہ خبر صحیح ہے۔ کیونکہ مُعتبر ذرایع سے مجھے معلوم ہوا ہے۔ یہ توحیدِ عامیانہ کی مثال ہے۔
    دوسرے نے عمرو سے دریافت کیا۔ اجی حضرت آپ کو اِس سوداگر کا حال معلوم ہے؟ عمرو نے کہا، خوب، ابھی ابھی میں اسی طرف سے آرہا ہوں۔ سوداگر سے ملاقات تو نہ ہوئی، مگر اُس کے نوکروں کو دیکھا، اُس کے گھوڑے دیکھے، اسباب وغیرہ دیکھنے میں آئے۔ ذرا شُبہ اس کے آنے میں نہیں ہے۔ یہ توحیدِ متکلّمانہ ہے۔
    تیسرے شخص نے خالد سے دریافت کیا۔ جناب اس کی خبر رکھتے ہیں کہ سوداگر صاحب سرائے میں تشریف رکھتے ہیں؟ خالد نے جواب دیا، بیشک میں تو ابھی ابھی اُنہیں کے پاس سے آرہا ہوں۔ مُجھـ سے اچھی طرح ملاقات ہو گئی ہے۔ یہ توحیدِ عارفانہ ہے۔
    دیکھو زید نے سنی سنائی پر اعتقاد کیا۔ عمرو نے اسپ و اسباب وغیرہ دیکھہ کر دلیل قائم کی۔ خالد نے خود سوداگر کو دیکھہ کر یقین کیا۔ تینوں میں جو فرقِِِ مراتب ہےاس کے بیان کی اب حاجت نہ رہی۔ اہلِِِ طریقت کے نزدیک جس توحید میں مشاہدہ نہ ہو وہ توحید کی صورت اور توحید کا قالب ہے۔ مشاہدہ سے اعتقاد کو کوئی نسبت نہیں۔ کیونکہ اعتقاد دل کو خوامخواہ ایک چیز کا پابند کر لیتا ہے۔ اور مشاہدہ ہر بند کو کھول دیتا ہے۔ اور مشاہدہ سے استدلال کو بھی کوئی مناسبت نہیں۔ کیونکہ۔۔

    پائے اِستدلالیان چوبین بود پائے چوبین سخت بے تمکین بود

    [ یعنی دلیلیں لانے والوں کا پاوًں لکڑی کا بنا ہوتا ہے۔ اور لکڑی کا پاوًں دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ]
     

Share This Page